اکثر حاملہ خواتین دورانِ حمل مٹی، کھریا، ملتانی مٹی وغیرہ شوق سے کھاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس عرصے میں انہیں بعض غذائوں سے شدید نفرت بھی ہو جاتی ہے۔ ان اشیاء کو دیکھنے بلکہ ان کے تصور سے بھی انہیں متلی اور ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ چنانچہ گوشت کھانے والی خواتین اپنے گھر میں گوشت دیکھنے تک کی روادار نہیں ہوتیں، کیونکہ بقول ان کے اس سے انہیں گائے کے گوبر اور بکری کی مینگنیوں کی بو آتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
عرصے تک اس کی وجہ حاملہ کے جسم میں ہونے والے ہارمونی تبدیلیوں بلکہ ہنگاموں کو قرار دیا جاتا تھا یا پھر دوران حمل ہونے والی جذباتی اونچ نیچ اس کی ذمے دار قرار دی جاتی تھی، لیکن 1980ء کے عشرے میں بعض ماہرین حیاتیات نے اس سلسلے میں تحقیق کا سلسلہ شروع کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ کیفیت دراصل ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والے نرم و نازک جنین (بچے) کی خود کو قدرتی زہروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ دوران حمل خود کو بعض غذائوں سے دور رکھ کر مائیں صحت مند بچے کو جنم دینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ پھر یہی اثر ان کی آئندہ نسلوں میں بھی منتقل ہوتارہتا ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں سہ ماہی ریویو آف بیالوجی میں اس ارتقائی نظریے کے سلسلے میں جو تفصیلات شائع ہوئی ہیں وہ بڑی حیران کن ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ صبح کے وقت حاملہ خواتین کی اکثریت جی متلانے کی شکایت کی شکار رہتی ہیں۔ یہ خیال بہت قوی ہے کہ حمل کی ابتدا میں دراصل صبح کے وقت کی یہ کیفیت اور کھانے سے نفرت کی وجہ بعض سبزیاں اور مصالحے ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ ماضی بعید میں گوشت جراثیم زدہ ہونے کی وجہ سے جنین اور حاملہ دونوں ہی کے لیے خطرناک ہوتا تھا۔ غیر محفوظ انداز میں پکنے والا گوشت آج بھی مضر صحت ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق دراصل استقرارِ حمل کے بعد ابتدائی مرحلوں میں عورت کے رحم میں قرار پانے والا جنین چونکہ اس کے جسم پر ایک بیرونی حملہ آور کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے عورت کا بدن ان بیرونی خلیات کا مقابلہ کرتا ہے جس کا اظہار متلی کی صورت میں ہوتا ہے اور اس عمل کو جسم میں تیار ہونے والے ہارمونز ایسٹروجین، پروجسٹرین اور دیگر ہارمونز صورتِ حال کو معمول یا اعتدال پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیکھا یہ بھی جاتا ہے کہ ایسی صورت و کیفیت سے دو چار خواتین اسقاطِ حمل سے بالعموم زیادہ محفوظ رہتی ہیں، لیکن ماضی کے اس خیال کے برخلاف اب ہارمونز کی بڑھتی ہوئی سطح، صبح کی متلی کی کیفیت کا لازمی سبب نہیں سمجھی جاتی بلکہ تحقیق کے مطابق درحقیقت اس صبح گاہی کیفیت میں مبتلا خواتین میں ایسٹروجین اور پروجسٹرین کی سطح عام خواتین کے برابر ہی ہوتی ہے۔کورنل یونیورسٹی (امریکہ) کے دو تحقیق کاروں فلیکس مین اور شرمن نے 16 ملکوں میں 7900حاملہ خواتین کو اپنی تحقیق میں شامل کیا۔ ان میں سے 66فیصد نے حمل کے چھے سے چودہ ہفتوں میں خود کو کسی نہ کسی طرح سے بیمار محسوس کیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 65فیصد نے یہ بتایا کہ انہیں کم از کم کسی ایک غذائی شے سے نفرت ضرور رہی۔ ان میں سے 16فیصد نے کیفین آمیز اشیاء سے پرہیز کیا، 8فیصد نے گوبھی جیسی تیز بو والی ترکاریوں کا استعمال نہیں کیا، 4فیصد نے اپنی مخصوص روایتی مصالحے دار غذائیں استعمال نہیں کیں۔ ان تمام غذائی پودوں میں وہ زہریلے اجزا شامل رہتے ہیں جو انہیں کیڑوں اور جراثیم سے محفوظ رکھتے ہیں۔ 28فیصد خواتین نے بتایا کہ انہیں خاص طور پر گوشت، مرغی، انڈے اور مچھلی سے شدید نفرت رہی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں